منگل، 19 اگست، 2025

                                                           مصنوعی ذہانت اپنےمثبت اورمنفی اثرات کے تناظرمیں  

               عبدالعلیم بن عبدالحفیظ سلفی/سعودی عربیہ

       اللہ رب العزت نے انسان کو وہ باتیں سکھائی ہے جن سے وہ نابلدتھا، اس کے لئے شریعت بنائی اسے حلال وحرام کا علم دیا ، قوت فکروعمل دیا اوراس کےلئےعقل اور فہم کے دروازےکھولے۔ یہی وجہ ہے کہ گزرتے وقت کے ساتھ    زندگی  کے تمام شعبوں میں ترقی  کے مختلف ادوار آتے رہتے ہیں ، پےدرپے جدید صنعتی انقلابات نے دنیا کو حیران کررکھاہے، خاص طورسے موجودہ دورایک ایسا دور ہے کہ ہم یہ نہیں  کہہ سکتےکہ جو آج  جس شکل میں موجود ہے کل کو وہ  بعینہ اسی صورت میں موجود رہےگا،ہر انقلاب کے بعد ہی ایک ایسا انقلاب ابھر کر سامنے آتا ہے جوپہلے سے بالکل ہٹ کرہوتاہے۔ٹیکنالوجی کی  آسیب زدہ دنیا میں ابھرتے انقلابات  میں سے ایک انقالاب مصنوعی ذہانت ہے ، جسے انگریزی میں  (Artificial Intelligence)  یا مختصرً ا AI)) کہاجاتاہے ۔

مصنوعی ذہانت کیاہے:

مصنوعی ذہانت ایک  ایسا سسٹم  ہے جو کمپیوٹر سائنس اور مشینیات کے میدان میں انسانی ذہانت کے اصولوں کے مطابق کا م کرتا ہے۔ یہ ٹیکنالوجی مشینوں کو انسانوں کی مانند سوچنے  ،مسائل کا حل نکالنے، پیچیدہ مسائل کو حل کرنے اور ان کی طرح فیصلہ کرنے کی صلاحیت فراہم کرتی ہے ۔ درحقیقت  مصنوعی ذہانت  کمپوٹر  سائنس کی ایک شاخ ہے  جو انسانی ذہانت کی نقل کرنے کے قابل نظام تیار کرنے کے لیے کام کرتی ہے۔نیز یہ  مشینوں کو سیکھنے، شکلوں اور نمونوں کو پہچاننے، معلومات کے مطابق  کارروائی کرنے،حساب وکتاب ، اصوات ومواد کی ترسیل  وتوصیل ، تخمینی امور اور انسانوں کی طرح فیصلے کرنے جیسے کام کوانجام دینےکے مواقع  فراہم کرتاہے۔آسان زبان میں کہیں توان مشینوں میں ذخیرہ شدہ معلومات کی بنیاد پر سوچنے، سیکھنے، فیصلے کرنے اور مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت موجودہے۔ یہ ایک ایسی ٹکنالوجی  اور ذہین مشین  ہے جو ان کاموں میں اپنا مہارت دکھاتی ہے جنہیں  انسان کے ذریعہ عقل اور فکروسمجھ کی بنیاد پرانجام دیاجاتاہے ،چنانچہ یہ وہ آلہ ہے جو انسان کی طرح کا م کرتاہے اورانسان کی طرح برتاؤ کرتاہے ، جیسے کہ بولنا، سوچنا اور  نتائج اخذکرناوغیرہ۔اوراس ٹیکنالوجی کی سب سے اہم بات یہ ہےکہ یہ انسانی عمل اورکازکو بہت ہی آسان بناکر نہایت ہی کم وقت میں اور احسن طریقےسےپوراکردیتی ہے۔ سنہ 2014 عیسوی میں جاپان میں ٹیکنالوجی کی  ایک بڑی نمائش میں کئی طرح کے روبوٹ رکھے گئے تھے، جن میں  کھیل کود سے لےکر کئی  امورمیں انسانوں کی نقل کرنے والے روبوٹس  تھے اور خاص طورسے جس روبوٹ نے لوگوں کی خصوصی توجہ کھینچی   وہ انسان نما بولنے والی   آسونہ نام کی  روبوٹک حسینہ  تھی   جسے خاص طورسے گانا گانے کےلئےڈیزائن کیاگیا تھا اور جس نے اپنی آواز سے سب کو دیوانہ  کردیاتھا۔یہ صرف ایک مثال ہےورنہ اس طرح کی بےشمارتکنیک دن بہ دن ترقی کے منازل طے کر رہی ہیں۔ مصنوعی ذہانت کےدائرۂ کار کا اندازہ اس بات سے بھی لگا سکتےہیں کہ اگر آپ کی چھوٹی بڑی  کوئی چیز گم ہوگئی ہواور اس کا ڈھونڈھنا مشکل ہورہاہوتو گم ہونے والی جگہ کی مکمل ويڈیو بنا کر اےآئی سے اس کی جگہ کا تعین کیاجاسکتاہے۔  چیٹ جی پی ٹی کا نیا ماڈل  GPT-OSS ایک زندہ، سوچنے والے دماغ کی طرح ہے۔جسےمصنوعی ذہانت کی تحقیقی تجربہ گاہ  (OpenAI) نے حال ہی میں اوپن ویٹ(open-weight) لینگویج  ماڈل سیریزکے تحت لانچ کیاہے۔

 آپ  خواہ جس عمر یا پیشے سے متعلق ہوں اس سے کچھ بھی پوچھیں، یہ سوال کو خود سمجھ کر سوال کرنے والے کی زبان ہی میں جواب دیتا ہے،  یہ صرف معلومات نہیں دیتا، بلکہ بات چیت کرتا ہے جیسے آپ کے کمپیوٹر میں ایک ہوشیار انسان بیٹھا ہو۔،آپ کو  مشورہ دےگا،آپ کی مدد کرےگا وغیرہ ،اوریہ سب آپ ہی زبان میں ہوگا۔ اور سب سے زبردست بات یہ ہے کہ اب  یہ سب کچھ بغیر انٹرنیٹ کےبھی  ممکن ہے۔

مصنوعی ذہانت کی اہمیت:

کوئی بھی اس بات سے انکار نہیں کر سکتا کہ مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی کے نہایت ہی اہم اور
 بے شمار فوائد ہیں ، جس کا استعمال زندگی کے متعدد شعبوں میں ہوتا ہے۔

 واضح رہے کہ مصنوی ذہانت کا دائرہ کار بہت ہی وسیع ہے، زندگی کے متعدد  شعبوں  میں اس  کا استعمال عام ہی بات ہوگئی ہے، موبائل جیسے چھوٹے آلات  سے شروع ہوکر کمپیوٹر ، ویب سائٹس اور روبوٹ  تک اس کے اثرات  نظر آتےہیں  ، جو انسان کی زندگی کے تمام گوشوں تعلیم ، تجارت ، معاشیات، صحت، وکالت، مذہبی قانون، طب، ریاضت،فوج، صنعت، اور دیگر خدمات کے شعبے سے متعلق ہیں۔غرضیکہ زندگی کے روزانہ کے چھوٹے بڑے ہر معاملات   پر اپنا تسلط جماچکاہے،بلکہ یہ کہاجائےکہ سب پرحاوی ہے توبیجا نہ ہوگا۔اوراب تو بعض حالات میں چیٹ جی پی ٹی کا نیا ماڈل   GPT_OSS انٹرنیٹ کے بغیر بھی کمپیوٹریا کسی دورسرے ڈیوائس پر چلتا ہے۔

بلا شبہ مصنوعی ذہانت اپنے بندوں پراللہ رب العزت  کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے، جو انہیں وہ چیزیں سکھاتی ہے جنہیں  وہ پہلے نہیں جانتے تھے، اور جو کچھ زمین و آسمان میں ہے ان کے لیے دستیاب کراتی ہے ، تاکہ وہ انہیں   اپنے روزہ مرہ کے امور واعمال  میں استعمال کر سکیں جو ان کی  زندگی اور طریقۂ زندگی کے لئے سود مندہوں  اور انہیں اپنے رب اور خالق کے قریب  کردیں ،اللہ تعالی فرماتاہے:‏﴿وَسَخَّرَ لَكُمْ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مِنْهُ﴾ (اور آسمان وزمین کی ہر ہر چیز کو بھی اس نے اپنی طرف سے تمہارے لیے تابع کر دیا ہے) ۔(الجاثیۃ/13)۔تابع اورمطیع کرنے کا مطلب یہی ہے کہ ان کو اپنی رحمت اور فضل خاص سے انسان کی   خدمت پر مامور کردیا ہےاور ہمارے مصالح ومنافع اور معاش سب انہی سے وابستہ ہیں ۔

یہ اللہ کی عطاکردہ ذہانت اور صلاحیت ہی ہےکہ  لوگوں کے لیے مصنوعی ذہانت سے  استفادہ آسان ہو گیا ہے۔ کچھ لوگوں نے اس کا خوب استعمال کرکے اپنی اور اپنی صلاحیتوں کی نشوونما کی ہے، اور دوسروں کو فائدہ پہنچانے ، علم پھیلانے، اپنے معاشرے کے لیے مفید ذرائع تیار کرنے، اور لوگوں کو اپنے رب کے قانون سے روشناس کرانے میں  اہم کرداراداکیاہے۔ٹیکنالوجی کی دنیا میں اس انقلاب کی صرف ایک مثال ہی اس کی اہمیت اور کامیاب  کاریگری   کا اندازہ لگانے کےلئے کافی ہے ،ہوائی جہاز جیسے دیوہیکل   سواری  جو ہزاروں ٹن کا بوجھ لے کر پینتیس چالیس ہزار فٹ  کی اونچائی پر پروازکرتاہے ، اور یہ اے آئی (مصنوعی ذہانت )جیسے ٹکنالوجی کا ہی کمال ہے کہ چند منٹوں کی پروازکے بعد اس کا انجن خودکار  طریقے اپنے مرکز ومحورکا تخمینہ لگانے میں کامیاب ہوجاتاہے ، اور جب تک اس کے اندر کوئی تکنیکی ( (technical خرابی نہ آئے  بحسن وخوبی اپنی منزل کی طرف روا ں دواں رہتاہے ۔ اے آئی  سے متعلق اس طرح کی ہزاروں مثالیں ہیں ، جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ یہ سب  اللہ تعالی کی کمال قدرت کا نتیجہ اوراس کی  عطاکردہ  ذہنیت اور صلاحیت  کا کمال  ہےکہ ہم ان سارے علوم وفنون سے حسب استطاعت و ضرورت  مستفیدہوتےرہتےہیں۔

مصنوعی ذہانت کے فوائد:

جیساکہ ذکرکیاگیاکہ مصنوعی ذہانت کو اگر مثبت ومناسب انداز میں تعمیری فکر کے ساتھ استعمال کیا
جائے تواس کےمختلف جہات میں بےشمارفوائدہیں،جیسے: بیماریوں کی تشخیص اور علاج کے منصوبے
 کے تحت طب کے میدان میں ۔ ذاتی نوعیت کے تعلیمی منصوبے کے تحت تعلیم کے میدان میں ۔ 
خود کار مشینیں اور روبوٹک نظام (Robotic systems ) کے تحت  صنعت کے میدان میں،
خودکار سرمایہ کاری اور اس سے متعلق   امور کے تحت  مالیاتی خدمات کےلئے، اسی طرح  بینکنگ، سیفٹی،
 میڈیسن اور انجینئرنگ  وغیرہ   کی فیلڈ میں ۔اگر اس کےفوائدکامکمل احصاء کیاجائےتوبات بہت لمبی
 ہوتی چلی جائےگی ،لیکن اگراس کےفوائدپرمختصرابات کی جائے اس کا حیطۂ عمل یا دائرۂ کار کچھ 
یوں ہے: 
روز مرہ کے کاموں میں  ترتیب ،تنسیق اور ان میں سہولت اوران کی اچھی طرح سے تکمیل۔ مختلف
 پروگراموں کی حسن  ترتیب جن کے اندرکم سے کم غلطیاں ہوں۔حمل ونقل  کے وسائل اور ان کی
 توفیر تسہیل  میں بہترین خدمات ۔ اپنی آواز اورجذبات کو کم وقت میں صحیح طورپر دنیاکے زیادہ تر  اور
 مختلف زبانوں میں پہنچانا۔طبی امور کی تسہیل  اور امراض وبیماریوں کی تشخیص  اور جراحی  اور آپریشن
 اور اس کی نگرانی میں آسانی ۔امن وسلامتی کے وسائل کی توفیر اور اس کی نگرانی ۔کسٹمر سروسزمیں 
بہترین خدمات ۔

زمین ،پہاڑ ،فضاؤں،سبزیوں اورديگر اشیاء خردونوش کے اندرموجودعناصرکا تجزیہ وتحلیل کرکے بہترین نتائج اخذکرنا۔موسم وماحول اورہواؤں کا تجزیہ کرکے بارش اورسردی وگرمی کا تخمینہ لگانا۔تعلیمی امور میں ترقی   اور اس حصول کےوسائل و اسباب کی توفیر اسی طرح  تعلیمی مواد تیار کرنا اور ریاضی کےمسئلے حل کرنا ۔ مالی اور تجارتی امور کی نگرانی اور ان میں وسائل اور فوائد کی  راہ متعین کرنے میں آسانی پیداکرنا ۔ درست تجزیہ کے ذریعے معیشت کو ترقی دینا۔دعوتی امور جیسے نصوص کی جمع وترتیب ، علماءکے بیانات سےاستفادہ اور  نشروتوزیع کےوسائل  کا کارگر اور مثبت استعمال۔ تحریریں لکھنا۔صحافت سے متعلق امور  جیسے جمع مواد اور ترتیب وتنسیق سے لے کر طباعت وتوزیع میں آسانیاں ۔ کسی بھی مود کا خلاصہ بنانا۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی میں  معلومات  کا وسیع استعمال اور کامیاب  نتائج کا حصول۔ کسی کام کی پلانگ اور منصوبہ بندی اور تجویزیں پیش کرنا۔جنگی آلات  اور مدافعتی قوت کی تنسیق وترتیب اور ان کے  استعمال میں مہارت حاصل کرنا۔ سیاسی امور میں   معلومات اور روابط کا بہترین ذریعہ۔ادارتی امور منظم رکھنا اور اس کی  ترتیب وتنسیق اور اشراف ونگرانی ۔سماجی ترقی میں  بے مثال خدمات  اور گھروں اور کمیونٹیز کے لیے تکنیکی ذہانتوں (Smart technologies) کے ذریعے طرز زندگی کو پرامن، معتدل اور بہتر بنانا۔ بڑے پیمانے پر زرعی ڈیٹا کا تجزیہ کرکے اور کسانوں کو درست  معلومات اور طریقۂ کار فراہم کرکے زرعی پیداواری صلاحیت کو بہتر بنانے میں مکمل تعاون۔ڈیجیٹل کامرس (Digital commerce) اورای کامرس (E-commerce)کو سپورٹ کرنا، آن لائن مارکیٹنگ اورسہولت کاری کےساتھ ان کےلئےپلیٹ فارم تیارکرنااورمختلف  ثقافتوں اور   مجالات میں   کمپنیو ں اورافراد کے درمیان ترجمانی کے ذریعہ  رابطہ کا ذریعہ اوراس میں  سہولت پیدا کرنا وغیرہ ۔ابھی حال ہی میں وزارت برائے اسلامی امورسعودی عرب کے زیراشراف پنتالسویں شاہ عبدالعزیز بین الاقوامی قرآن مجیدکےمقابلہ میں تحکیم کےلئے عام تقلیدی اورورقی نظام سےہٹ کر الیکٹرانک ثالثی کی تکنیک متعارف کرائی گئی ہےجس سے درجات ونتائج کے احتساب میں  سہولت،شفافیت اور سرعت آئی ہے۔اسی طرح مشارکین اور زائرین کی رہنمائی  اور تقریبات ، مقامات اور شمولیت کے طریقۂ کار سے متعلق معلومات  فراہم کرنے کےلئے  دنیا کی مختلف زبانوں میں ساجھا  روبوٹک تکنیک (Interactive robotic technology) کی سہولت بھی  رکھی گئی ہے ۔

مصنوعی ذہانت کے منفی اثرات:

مصنوعی ذہانت کے عظیم اوربسااوقات یقینی  فوائد کے باوجودزندگی کے ہر شعبہ پراورہرمیدان میں  اس کے منفی اثرات اور بعض اوقات غیرمعمولی اوربےشمار خطرات اپنی جگہ پر موجودہیں،اس لئے کہ کوئی بھی زیرک انسان جو اس فن کا ماہر ہو اسے غلط  کمانڈ دےکر  اس سے ناجائزفائدہ اٹھا سکتاہے۔ چنانچہ ہمیں اس ترقی  کی  آڑمیں چھپی خطرناکی  کوبھی سمجھناچاہئے اور اس پر غور کرنا چاہیےکہ اگر اس کا غلط استعمال کیا جاتا ہے یا اسے قانونی کنٹرول کے بغیر  اوربےمہارچھوڑ دیا جاتا ہے توانسانیت پر اس کے کتنےمنفی اور گہرے اثرات مرتب ہوں گے؟

مصنوعی ذہانت دیگر جدید آلات کی طرح ایک دو دھاری تلوار ہے۔ اگر اسے بھلائی، تعمیرو ترقی، اور دعوت وتعلیم  کے لیے استعمال کیا جائے تو یہ انسانیت لئے بہت بڑی نعمت اوراوراس پرعظیم  احسان ہوگا۔ لیکن اگر اسے برائی، تکبر اور تباہی کے لیے استعمال کیا جائے تو یہ اس کے لیے لعنت، آفت اور آزمائش ہوگی۔

جب ہم مصنوعی ذہانت کے سلبی پہلو کو دیکھتےہیں تو  اس کے غلط اثرات  کے تجربات بھی ہوئے ہیں ،
بہت سارے لوگوں نے ان کا غلط استعمال کیاہے ،بلکہ خوب غلط استعمال کیاہے اور ان طریقوں سے
 کیاہے جو شدت اور اثرمیں عام  غلط رویوں سے ہٹ کر ہے ۔ اس کےاندر آواز، فوٹو اور ویڈیو  ایڈیٹنگ 
کرکے کوئی بھی بات کسی کی طرف بھی منسوب  کردی جاتی ہےجو صدفی صد اصلی معلوم پڑتی ہے 
  خاص طور سے اس  فن میں  انٹرنیٹ اور ٹکنالوجی کی دنیا کا انقلاب چیٹ بوٹ ( chatbot ) کا  
  خاص  کردارہےجو ایک سافٹ ویئر ایپلی کیشن  (Software application ) یا ویب  
 انٹرفیس (Web interface)  ہے جسےنصی ( متنی)  یا  زبانی گفتگو کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے،
جواپناعمل  گہرےمطالعہ (Deep learning ) اور قدرتی زبان کے تجزیاتی عمل
  ( Processing ) کا استعمال کرکے پوراکرتاہےحالانکہ  اس  کا بنیادی کام انسانی گفتگو کی
 نقل کرنا ہے۔

مصنوعی ذہانت کے انقلاب اور اس کے بڑھتےرسوخ واثرات پر اگر غورکریں توعام انسانی اعمال پراس کے بہت ہی گہرے اور نامناسب اثرات مرتب ہوتےہیں ، اس لئے کہ جوں جوں  انسانی افکار واعمال میں اس کا اثربڑھتاجائےگا ان پر اپنا تسلط ہوتے ہوتے آدمی کو ناکارہ اور بےروزگاربناتاجائےگا ، اس لئےکہ  ایک بڑا طبقہ  جو اپنے کاروبارمیں منافع اور خوب منافع کا خواستگار ہوگا انسانوں سے زیادہ ان مشینوں اور اختراعی ذہانت پر بھروسہ کرنے لگےگا،اس لئےکہ اس میں وقت کا بچاؤبھی ہے اورزیادہ سے زیادہ منافع کے حصول کا امکان بھی، جس کا واضح نتیجہ عام انسانوں کے تعطل عمل کی صورت میں پیش آئےگا ،جو بے روزگاری کو بڑھاوہ دےگا ، بلکہ  آج دنیا کی بڑی بڑی کمپنیوں اور کاریگر سماج میں  اس کا واضح اثر دیکھنے کو مل رہاہے۔ اسی طرح اخلاقی مسائل سے لےکر فیصلہ سازی میں برتے جانے والے تعصب  جیسے امور بھی ہمارے سامنےہیں ۔  اےآئی کی خطرناکی کا اندازہ  اس بات سے بھی  لگا سکتے  ہیں کہ اس کے ذریعہ ویڈیوزکی ایڈیٹنگ کرکے روتے کو ہنستا اور ہنستے کو روتا  ہوا بآسانی دکھایا جاسکتاہے، اسی طرح دیگر معاملات میں بھی غلط اور برعکس صورت پیش کی جاسکتی ہے ، جس سے ملک و قوم  اور سماج اورمعاشرہ  غلط فہمی کی بنیاد پر کسی بھی بڑے فتنے کا شکار ہوسکتاہے، مصنوعی ذہانت چونکہ ایک پاورفل او ر زود اثر ٹکنالوجی اورتیز انتشارکا ذریعہ ہے اس لئے اس  کے ذریعہ پھیلائے جانےوالے افواہ اور جھوٹی باتوں  کی وجہ سے قومی سلامتی خطرے میں پڑ سکتی ہے ۔

 اس کے خطرات میں سے جرائم کے ارتکاب میں سہولت اور آ‎سانی  اور ارتکاب کےبعد سزاسے بچنے کے طریقے بھی ہیں،سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ مصنوعی ذہانت کے خطرات بہت زیادہ ہیں  خاص طورسے ڈیجیٹل اچکوں (Hackers) کے ذریعہ  بینک اکاؤنٹ سے لے کر کمپنیوں تک  کے ڈیٹا تک  چراکرجعل سازی اور   فراڈ کرنا جیسے جرائم بھی آج کل عام ہیں۔ نیزاسی  ذہانت کا استعمال کرکے  عالمی او رملکی منڈی کو من مانی کنٹرول کرنا بھی  اس کے مفاسدمیں سے ایک ہے ،جس کی وجہ سے منافع بخش سرمایہ کاری     کو غلط راہ دی جاسکتی ہے ۔بعض جمہوری ممالک جہاں الکٹرانک ووٹنگ سستم رائج ہے ملک وسماج کےلئےضرررساں پارٹیاں اورفتنہ پرور،غیرمہذب اوربےلگام افراد حصول منافع اورقومی، مذہبی،علاقائی اور لسانی عصبیت کی خاطراسی طرح کی ٹیکنالوجی کا غلط استعمال کرکےحکومتوں اور وزارتوں پرقابض ہونے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔

مصنوعی ذہانت کی سب سے خطرناک بات او راس کی  خامیوں میں سے ایک یہ ہے کہ منفی اثرات اورسلبی نظریات کی ترویج میں  اس    کی نہ  کوئی اخلاقی ذمہ داری  ہوتی ہے اور نہ ہی  اس کا اپنا کوئی معیار ہے، بلکہ  اسے کنٹرول کرنے والا  جس جہت سے چاہے اس کا استعمال کرکے  اپنا الوسیدھا کرسکتاہے۔اسی طرح  اگر اس پر کوئی قانونی کنٹرول نہ ہوتومعاشرتی عدم استحکام ، سماجی تنازعہ  اور دیگر امورمیں کس کی ذمہ داری بنتی ہے  یہ مہمل ہوگا۔

اگر مصنوعی ذہانت کے  ان خطرات  اور  سلبی پہلو کی طرف  کلی توجہ نہیں دی گئی اور اس کا کوئی مثبت حل نہیں نکالاگیا تو اس کے  دام فریب اور منفی اثرات سے ایک جہاں کو  متأثرکرکےبرباد  کیاجاسکتا ہے۔

مصنوعی ذہانت کےتئیں ہماری ذمہ داری:

مومن وہ ہیں جن کی آنکھیں دنیا کی زینت سے اندھی نہیں ہوتیں کیونکہ  ان ایمان کامل ہے کہ
 سب کچھ  قادرمطلق کے ہاتھ میں ہے سب  اسی کے اختیار میں ہے، وہ فرماتاہے:﴿للهِ مُلْكُ 
السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا فِيهِنَّ وَهُوَ عَلَى كُلِّ 
شَيْءٍ قَدِيرٌ﴾۔( آسمانوں کی
 اور زمین کی اور جوچیزیں ان میں موجودہیں  کی سلطنت اللہ ہی کی ہے ۔اور وه ہر شے پر پوری 
قدرت رکھتا ہے)۔(المائدۃ/120اور اس لئے بھی کی اللہ کی کاریگری میں اس  کی قدرت
 کے مظاہر ہیں  اور بنو نوع انسان کو جو روئےزمین پرخلافت عطاکی ہے  اس کے اسباب اور ذرائع
  اور ان کے استعمال  کا صحیح راہ متعین کرنا ان  کےاوپرواجب ہے، جس سے قوم ومعاشرہ اور ملک
 وملت کا بھلا ہوسکے۔ 
بلاشبہ ایک سچا مؤمن ذہین اور ہوشیار ہوتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ اپنے دین اور دنیا کی بھلائی کے لئے
اس  کا مقام کہاں  ہے ، اپنے دین اور ایمان کی حفاظت کے لئے  کون سے ذرائع کب اور کہاں میسر 
ہوں گے ،دین وایمان  کا دفاع کیسے کرنا ہے اور اسے پھیلانے کے لیے جدید ذرائع کا استعمال کس حد
 تک  کرسکتا ہے؟  ترقی پذیر دنیا کا کوئی بھی سائنس اور ٹیکنالوجی اس کی داعیانہ  اور مؤمنانہ کردار  کو
  کبھی ہیچ نہیں کرسکتی ، بلکہ ہر بدلتے وقت ، موسم اور  ماحول میں اسے اپنا ہتھیار بنانا اچھی طرح آتاہے ،
 اسلاف کی تاریخ نے ہمیں یہی سبق دیا ہے ۔چنانچہ زیربحث موضوع میں اپنے دین وایمان  کی  حفاظت 
 کےلئےاس کے اوپر مناسب  عمل اور  صحیح فکر کی  ذمہ داری بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے اور اس کی یہ  ذمہ داری 
 ہربدلتےوقت کے ساتھ دوچند ہوتی جاتی ہے ۔
ہم دیکھتے ہیں کہ بعض اوقات لوگ گوگل پر نشر ہونے والے فتاوے پرکلی یقین کرنے لگےہیں
 او ران کے ذہن میں  یہ بیٹھ گیاہے کہ اب علماء  اورمفتیان کی ضرورت باقی نہیں رہی ،  اسی طرح 
 علمی موادکےلئے  طلباء اس پر کلی اعتماد کرنے لگےہیں بجائے اس کے کہ وہ مصادر اصلیہ کی طرف
 رجوع کریں اوراسلاف کےمضامین اور ان کے طرز  استدلال  اورمنہج سے استفادہ کریں ۔  یہ ایک ایسا 
طرزعمل ہے جو آدمی کو دین کی صحیح 
تعلیمات  اور منہج صحابہ سے دور کردیتاہے ، اس لئے کہ انٹرنیٹ پر نشرکردہ ہر مضمون فی نفسہ صدفی 
  صددرست ہرگزنہیں ہوتا بلکہ صحیح اور غلط جو کچھ بھی اس کے اندر ڈال دیاگیا ہے سب  اس  کے اندر 
موجودہےجونصوص اورمسائل کی باریکیوں اور اس  سلسلے میں اسلاف کے منہج کو سمجھنے کے لئے ناکافی 
ہے ،اس کےلئے علماء اور راسخین
 فی العلم کی طرف رجوع ضروری ہے ۔
چنانچہ  اس کی طرف سے دی گئی نعمتوں سے پہلوتہی  یا اس کے اندر غیرمناسب تصرفات سے بچنا
 ہمارے لئے ضروری ہے ۔

اس مناسبت سے اگر یہ کہاجائے کہ شریعت کی تعلیم وتعلم  اور تبلیغ واشاعت کے مجال میں مصنوعی ذہانت نے جہاں وسعت دی ہے وہی اس کےموادکےصحیح اورمعقول حصول کا دائرہ بھی محدود  اور معہود کردیاہے ۔ اس انقلابی اور اختراعی دماغ  اور سسٹم کے اندرشریعت سے متعلق  مضامین اور ڈیٹا  کی شکل میں ہر  طرح کے رطب ویابس کو فیڈ کردیاگیاہے، چنانچہ وہ  استفسار کے وقت     اسکرین پر   خاص طورسے  چیٹ جی پی ٹی (ChatGPT) کے توسط سےان ساری معلومات کو ڈسپلےکردیتاہے، جس کی وجہ سے ایک مبتدئ حیس وبیس کا شکار ہوجاتاہےکہ کن معلومات کو اخذکیاجائے ، جوحقیقتا کتاب وسنت کی تعلیمات اور منہج سلف کے موافق ہو،اورپھربسا اوقات اسلاف کے طریقے سے منحرف عقائد وافکار  اور مہمل  اورغیرمؤثق مصادرسے اپنے پیاسے فکر کو سیراب کرنے کی کوشش کرنے لگتاہے ، ٹھیک اسی طرح جیسے بعض تحریکی افکار یا خود خویش مفکرین کی  کتابوں کے مطالعہ کے وقت حاصل ہوتاہے ،جو دین  وتحریک  اور حاکمیت کے نام پر نوجوان ذہنوں  میں میٹھازہر(Sweet Poison) انڈیلنے کی کوشش کرتے ہیں،چنانچہ ایک بڑا طبقہ ان کے دام فریب  میں آکر قرآن وسنت اور منہج صحابہ کے اندر شک وارتیاب کا شکارہوجاتاہے۔

بہت سارے لوگوں نےاس مصنوعی ذہانت کاناجائز فائدہ اٹھا کر اس کے ذریعہ مسلمانوں کو غیر
مستحکم کرنے کی کوشش کی ہے اور اس عظیم دین کی سچائی اور خالق دوجہاں کے بارے میں شکوک و
 شبہات کا اظہار کرکےاور قرآن وسنت کےنصوص میں بےجا تاویل اورخردبردکرکے اس کےاور
اس کے دین سے لوگوں کو بیزارکرنے کی کوشش کی ہے ۔کچھ لوگوں  نے مسلمانوں کے خلاف اسی 
کے ذریعہ تجسس کارویہ اختیار کرکے ان کے درمیان منافرت اور انتشار پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔
دین اور دین کے علم بردارعلماء کی کردارکشی کی کوششیں بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے، وہ اچھی طرح
 جانتےہیں کہ علماء کی شان اور ان کے مقام کو کمزور کردیا جائے تو مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ ان کے دام
 فریب میں تو آہی جائےگا ،ساتھ  ہی ساتھ جن غیر مسلموں کی دلچسپی اسلامی امور میں ہے وہ اس سے
 دور ہوں گے۔اسی طرح مسلمان حکمرانوں کے تئیں غلط اور نامناسب نظریات پیش کرکے امت کو
 اتحاد سے روکا جاسکتاہے ۔ نیزجھوٹ ،غیبت ،چغلخوری ، تجسس ، بدظنی   اور اخلاقی اقدار کو پامال کرنا
جیسی برائیاں  اس سسٹم  کے ذریعہ بہت ہی آسان ہوگیاہے۔چنانچہ مصنوعی ذہانت کی مثبت پہلو کے
 ساتھ ساتھ منفی اور دور رس برے اثرات سے  بھی ہرصاحب عقل اور خاص طورسے مسلمانوں کے
لئے اچھی  واقفیت ضروری ہے۔ نیزایک  طالب علم  اور عام مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ کسی بھی
 میدان کی متعفن ذہانت کے ساتھ ساتھ مصنوعی ذہانت سے استفادہ کے وقت  بیدار مغزرہے اور
 کتاب وسنت کے طریقے اور اسلاف کے منہج کو پیش نظر رکھے ورنہ یہ دودھاری تلوار کبھی بھی اور کہیں 
بھی ان کے فکروفہم پر  کاری ضرب  لگا سکتی ہے،اورخاص طورسےکچےاذہان اس سے لاشعوری طور
پرمتاثرہوکرمنہج سلف کی طرف سے شکوک وشبہات کا شکار ہوسکتےہیں ۔چنانچہ ہمیں حتی الامکان
 اس کی خظرناکی کو  روکنے کی کوشش کرنی  چاہیے او راس  کے تئیں خود کو بیدار رکھناچاہئے ۔ 
 سچ کہیں تو بسا اوقات اس سسٹم پر  فسق کا اطلاق  صدفی صد درست معلوم ہوتاہے ،جس  کی کسی بھی
 خبر پرآنکھ موند کر بھروسہ نہیں کیاجاسکتاہے ،  بلکہ اس کے  اندرمناسب  اور جائز تفتیش ایک مؤمن 
کے شایان شان اور اس کا فریضہ  ہے ،چنانچہ اللہ تعالی فرماتاہے:(يَاأَيُّهَاالَّذِينَ
 آمَنُوا إِنْجَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا أَنْ تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ 
فَتُصْبِحُوا عَلَى مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِينَ)۔( اے مسلمانو! اگر تمہیں کوئی فاسق خبر دے
 تو تم اس کی اچھی طرح تحقیق
 کر لیا کروایسا نہ ہو کہ نادانی میں کسی قوم کو ایذا پہنچا دو پھر اپنے کیے پر پشیمانی اٹھاؤ)۔(الحجرات/6)۔
  اس آيت کریمہ  کے اندراس کی شان نزول کی بحث سے قطع نظرایک نہایت ہی اہم اصول بیان فرمایا 
گیا ہے، جس کی انفرادی اوراجتماعی دونوں سطحوں پر بڑی اہمیت ہے۔ ہر فردجماعت ، معاشرہ ، طبقہ اور 
حکومت کی یہ ذمہ داری بنتی ہےکہ اس کے پاس جو بھی خبر یا اطلاع آئے بالخصوص بدکردار، فاسق اور
 مفسد قسم کے لوگوں کی طرف سےیا پھرجن کے افکارمتعفن یا صحیح اور غلط کے درمیان مخلوط ہوں تو 
پہلے اس کی تحقیق کی جائے تاکہ غلط فہمی میں کسی بھی طرح کے اقدام سے بچا جاسکےجس کا منفی  اثریا برا 
نتیجہ دین وایمان ، اخلاق وافکار اور  ملک وملت  پر پڑتاہو۔ 

چنانچہ اول تو کسی بھی مسئلہ میں اس سسٹم کے پیش کردہ مواد پر کلی بھروسہ نہ کیاجائے بلکہ اصل مراجع کی طرف رجوع کیاجائے اوراگرضرورت پڑے توعلماء حق کی طرف رجوع کیاجائے تب کہیں جاکر اس سسٹم کے خفیہ اور ظاہری نقصانات سے بچا جاسکتاہے۔ نیز  مصنوعی ذہانت کے استعمال  اور اس سے استفادہ کے وقت چند شرعی ،اخلاقی  اور قانونی  امورکی مراعات ضروری ہیں ،جیسے: اس  کا استعمال شرعی اصول وضوابط کے مطابق ہو۔ مصالح عامہ اورجائزمنافع کا حصول متحقق ہو۔ فردومعاشرہ اورملک وقوم کی سلامتی پرضرب نہ پڑے۔ استعمال کرنے والا اس کے ضررومفاسد سے محفوظ ہو ۔ اخلاقی اور فطری  اقدارکے منافی نہ ہو۔عملی اور فکری سلامتی  کی کےلئے خطرہ نہ ہو، اس سے کسی قانونی  امرکی مخالفت لازم نہ آتی ہو۔ مقاصد شریعت  پر اس کا فسادمؤثر نہ ہواور مقاصدشریعت  پانچ ہیں:دین کی حفاظت ،  نفس کی حفاظت ، عقل کی حفاظت ، نسل کی حفاظت اور مال کی حفاظت۔  

اللہ تعالی ہمارے اندر صحیح فکری صلاحیت پیداکرے اور ہمارے دین وایمان کی حفاظت فرمائے ۔
وصلی اللہ علی خیرخلقہ وسلم۔
                             (رزنامہ "سماج نیوز" 18 / اگست 2025 )
**********
 

جمعرات، 17 جولائی، 2025

قربانی اپنے مقاصد کے آ‏ئینے میں

 

قربانی اپنے مقاصدکے آ‏ئینے میں

                                                                     عبدالعلیم بن عبدالحفیظ سلفی (سعودی عربیہ)

     قربانی  کا موسم  حلال اور متعین جانوروں  کے ذبح کے  ذریعہ اللہ رب العزت  کے تقرب وخوشنودی سے معنون ہے ، جو صدیوں سے معمول بہا رہی ہے ۔ بلکہ انسان اپنےنفس اور طبیعت کے رجحان اور لگاؤ کے مطابق  نذرمان کر یا پھر عمومی تقرّب  کے طورپرہمیشہ جانوروں اور اس  کے علاوہ دیگر چیزوں کے ذریعہ بھی  اپنے معبود کے لئے قربانی پیش کرتارہاہے ، وہ قربانی خواہ معبود حقیقی کی رضاکے مطابق ہو یاپھر لوگوں نے اسے غیرشرعی طریقے پر  یا بتوں اور معبودان باطلہ  کے نام پر انجام دیا ہو۔ قرآن مجید کے اندر ہابیل اور قابیل کی قربانی  کا تذکرہ ہے  ،اللہ تعالی فرماتاہے: {وَاتْلُ عَلَیْهِمْ نَبَاَ ابْنَیْ اٰدَمَ بِالْحَقِّ }۔(المائدۃ:27)۔( آدم (علیہ السلام) کے دونوں بیٹوں کا کھرا کھرا حال بھی انہیں سنا دو)۔

     یوں تو انسان اپنی جان و مال اور اعمال وعبادات کے ذریعہ اللہ رب العزت سے قربت حاصل کرنے  کا مکلف ہے ، جو اس کی تخلیق کا مقصد ومطلوب ہے اوروہ اعمال جو اللہ تعالی کی قربت اور اس کی خوشنودی کے ذرائع ہیں  انہیں میں سے ایک جانوروں کی قربانی بھی ہے ،جو آدمی پر اس کی حیثیت اور رغبت کے اعتبار سے  کچھ شرائط کے ساتھ مشروع ہے ۔ 

     ذیل میں ہم قربانی  کے اہداف ومقاصدسے متعلق کچھ باتیں رکھتے ہیں جس سے اس عظیم عبادت کے اسرارورموز اور اہدافومقاصدکے بارے میں ہماری معلومات میں اضافہ ہو سکے ، اور ہم اپنی اس عبادت کوقرآن وسنت کے مطابق اور  اس لائق بناسکیں جس سے ہمارارب راضی ہوجائے ۔واللہ ھوالموفق  :

(1)  دیگر تمام عبادتوں کی طرح قربانی  کے اندر بھی مطلوب ومقصود بس تقوی ہے ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :" إِنَّ الله لا يَنْظُرُ إِلى أَجْسامِكْم، وَلا إِلى صُوَرِكُمْ، و أموالكم  وَلَكِنْ يَنْظُرُ إِلَى قُلُوبِكُم وأعمالكم " "اللہ رب  العزت تمہاری جسامت اور شکلوں اوردولت کو نہیں دیکھتا بلکہ وہ تو تمہارے دلوں اور اعمال کو دیکھتاہے" (صحیح مسلم/1564) اوراللہ رب العزت کا فرمان ہے : {لَن يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَٰكِن يَنَالُهُ التَّقْوَىٰ مِنكُمْ ۚ}(الحج:37) "اللہ کو قربانیوں کے گوشت نہیں پہنچتے  اور نہ ان کے خون  پہنچتے  ہیں بلکہ اسے تمہارا تقوی پہنچتاہے "۔

     بت پرستی اور شرک وخرافات کے اندھیروں میں بھٹکتی بے چین مشاعر وجذبات  نے پوری دنیا اور خصوصا عرب کے بت پرستوں کو   گمراہی کے غار میں اپنے لئے سکون نفس تلاش کرنا ان کا دینی مشغلہ بنا دیاتھا ، ان کا عقیدہ اورعمل اس قدر بگڑچکاتھاکہ  وہ  ہر جائزوناجائز اور باطل وبےبنیاد طریقہ اپناتےتھے اوراسےاپنےلئے نجات وکامیابی کا وسیلہ اورذریعہ  سمجھتےتھے ،بتوں  کے لئے جانوروں کی بلی  دیکر اس کا گوشت ان پر رکھتے  اوراس کے خون کا چھڑکاؤ کرتے ، اور بعض روایتوں کے مطابق  اسے خانہ کعبہ پر چھڑکاؤ کرتے ۔   

 بظاہران کا یہ عمل ان کے عقیدے کی روسے  ان کے معبودان کی خوشی کا ایک عملی   وسیلہ تھا جوگمراہ گر  اورگمراہ کن نفس کے لئے ظاہری سکون کاسبب نظرآتاتھا ،اسلام کی روشن تعلیمات اور واضح ہدایت کے آجانے کے بعدکچھ صحابہ کرام کو بھی ان کے یہ اعمال کچھ بھلے لگے اور کہنے لگے کہ ہم تو اس کے زیادہ حقدارہیں ،اللہ رب العزت نے اپنی مذکورہ آیت کے ذریعہ اس عمل اور عقیدے کا انکارکیااور یہ واضح کردیاکہ تمہاری قربانی اور ان کفارومشرکین کی بلی میں آسمان وزمین کا فرق ہے ،  وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اپنے اس عمل سے اپنے معبود کو خوش کرلیں گےتویہ محال ہے ،حقیقت تو یہ ہے کہ رب العزت ہر قسم کے مادی  احتیاج سے پاک اور بری ہے۔  مادی یا معنوی جو بھی عمل اور عبادت ایک   مسلمان کرتاہے ، اس کا مقصد کائنات اور  خاص طورسےاولاد آدم کی بھلائی  مقصود ہوتی ہے ،اور اگر دوسرا اس سے مستفید نہ بھی ہو تو عامل کی ذات اس  استحقاق واستفادہ   کی محتاج ہے ۔

 لہذا مذکورہ آیت کریمہ اس بات کی صراحت کرتی ہے کہ تقوی  قربانی کا عظیم مقصد ہے ، جو ایک قربانی کرنے والے کو ہمہ دم پیش نظررکھنی چاہئے۔

(2) قربانی اور اس کے ساتھ دیگر عبادتوں اور نیک کاموں میں  اپنے اندر اخلاص  پیدا کرنے پر ابھارا گیا ہے ، جیسا کہ ہابیل اور قابیل کی قربانی   کے واقعہ میں ذکرکیاگیا ہے ہابیل کی قربانی اس کے اخلاص کی وجہ سے اللہ تعالی نے قبول کرلیا ،جبکہ قابیل کی قربانی کو اس کی غلط نیت کی وجہ سے  رد کردیا، کیونکہ  نیکیاں اسی کی قبول کی جاتی ہیں  جس کےاندراخلاص اور تقوی  ہو ، فرماتاہے:( اِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ اَحَدِهِمَا وَلَمْ یُتَقَبَّلْ مِنَ الْاٰخَرِؕ قَالَ لَاَقْتُلَنَّكَ ؕ قَالَ اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّٰهُ مِنَ الْمُتَّقِیْنَ)۔( المائدۃ:27)۔(ان دونوں(ہابیل اورقابیل) نے  قربانی  پیش کی، ان میں سے ایک کی قربانی  تو قبول ہوگئی اور دوسرے کی مقبول نہ ہوئی تو وه کہنے لگا کہ میں تجھے مار ڈالوں گا، اس (ہابیل )نے کہا اللہ تعالیٰ تقویٰ والوں کا ہی عمل قبول کرتا ہے)۔

(3) قربانی کا ایک مقصد اللہ رب العزت کا تقرب اور اس کی  خوشنودی حاصل کرناہے ۔لہذا ریاء کاری اور  ظاہری دکھاوہ اور تکبر وتعلی قربانی کی عدم قبولیت کے اسباب میں سے ہیں ، بلکہ اعمال وعبادات میں یہ چیزیں گناہ  اور رب العزت کی ناراضگی کا  بڑا سبب ہیں ۔ آج  دیگر عبادتوں کی طرح قربانی میں ریاء ودکھاوہ اور تکبروتعلی  نے زور پکڑلیاہے ، جس کا ملاحظہ قربانی کے وقت جانوروں کی خرید وفروخت کے  سلسلہےمیں بخوبی کیا جاتاہے ۔ اور جہالت  تو یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ جانورکےبدن یا چہرے پر اسلامی شعار سے متعلق کوئی کلمہ جیسے" لاالہ الا اللہ   " یا لفظ الجلالۃ (اللہ ) یا "محمد" (صلی اللہ علیہ وسلم)  نقش کرکےیا  ان کی شباہت کا تصورپیش کرکے ان کی قیمت کو لاکھوں  کروڑوں میں پہونچادیا جاتا ہے اور پھر بازار سے لے کر سوشل میڈیا تک  اس کی اہمیت وفضیلت اور متبرک ہونے کا گُن گان کیاجاتاہے  ،جسے  خریدنا اور اس کی قربانی کرنا لوگ فضیلت اور شرف کی بات سمجھتےہیں اور کچھ تو دکھاوہ اور اپنی دینداری یا مالداری کی دھاک جمانے کے لئے  اس کے حصول میں کوشا ںہوتےہیں ، جبکہ اس طرح کا عمل محض  دین سے جہالت ونادانی یا پھر ریاءکاری اور دکھاوہ کا سبب ہے ۔واللہ المستعان ۔

(4)  قربانی تقریبا  ہر ملت میں مشروع  رہی ہے ، اللہ رب العزت کا فرمان ہے :{ وَلِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنسَكًا }(الحج :34)(اور ہر امت کے لئے ہم نے قربانی کے طریقے مقررفرمائے ہیں )۔ اور خاص طور سےیہ   اس امت کےلئے دین کے شعائر میں سے ایک  اہم شعارہے۔اس لئے کسی بھی طرح سے اس کا انکار یا اس کے اندر کوئی تبدیلی اور غیرشرعی تصرف کسی بھی حال میں روا اور جائزنہیں ہے ۔غریبوں  او رمحتاجوں کی مدد کےنام پر آج پوری دنیا  اور خاص طور سےبرصغیرمیں  قربانی جیسے اہم شعار کو مٹانے کی کوشش عا م ہوچکی ہے اور کچھ ناعاقبت اندیش مسلمان بھی ان کی ہاں میں ہاں ملانے میں پیش پیش نظرآتے ہیں۔ اللہ انہیں ہدایت دے ۔ 

(5) قربانی توحید باری تعالی کے اقرارواذعان اور شرک وبت پرستی سے اجتناب ودوری کا بہت بڑا ذریعہ ہے،کیونکہ  قربانی  عبادتوں میں سے ایک اہم عبادت ہے،  جو  صرف اور صرف اللہ رب العزت کے لئے ہی مشروع ہے ، غیراللہ کے لئے قربانی  منکر عظیم ، شرک  اکبراور  اللہ رب العزت کی ناراضگی کا سبب ہے ،اللہ رب العزت کا واضح حکم ہے :{ قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ . لَا شَرِيكَ لَهُ ۖ وَبِذَٰلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ}(الانعام :162-163)  (کہہ دیجئے میری نماز ،میری قربانی، میرا جینا اور میرامرنا سب اللہ رب العالمین کے لئے ہی ہے جس کا کوئی شریک وساجھی نہیں،  مجھے اسی کا حکم دیاگیاہے ، اور میں سب ماننے والوں میں سے پہلا ہوں )۔ اور قربانی کا ذکر کرتےہوئے فرمایا: {فَإِلَٰهُكُمْ إِلَٰهٌ وَاحِدٌ فَلَهُ أَسْلِمُوا}(الحج :34)۔(سمجھ لو کہ تمہارامعبود برحق صرف ایک ہی ہے تم اسی کے تابع فرمان ہوجاؤ)۔

     لہذا جس طرح نمازکا حقدار صرف اور صرف اللہ رب العزت ہے ، کسی دوسرے کے لئے نماز جائز نہیں،  اسی طرح قربانی بھی اللہ کے علاوہ کسی کے لئے نہیں کرسکتے  ۔ اس عمومیت میں اصحاب قبور سے لےکرملا‏‏ئکہ ،انبیاء جن ،ستارے ، بت اور دنیا کی ہر شیئ  داخل ہے ۔

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : " لعن الله من ذبح لغير الله " (صحیح مسلم /1978) "جس نے غیر اللہ کے لئے ذبح کیااس پر اللہ کی لعنت ہوتی ہے "۔

(6)  قربانی کا ایک اہم مقصد اللہ رب العزت کا ذکرہے ، فرماتاہے :{ وَلِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنسَكًا  لِّيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَىٰ مَا رَزَقَهُم مِّن بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ ۗ فَإِلَٰهُكُمْ إِلَٰهٌ وَاحِدٌ فَلَهُ أَسْلِمُوا ۗ وَبَشِّرِ الْمُخْبِتِينَ . الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَالصَّابِرِينَ عَلَىٰ مَا أَصَابَهُمْ وَالْمُقِيمِي الصَّلَاةِ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ.وَالْبُدْنَ جَعَلْنٰهَا لَكُمْ مِّنْ شَعَآىِٕرِ اللّٰهِ لَكُمْ فِیْهَا خَیْرٌ ۖۗ فَاذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ عَلَیْهَا صَوَآفَّ ۚ }(الحج :34-36) (ہم نے  ہر امت کے لئے قربانی کے طریقےمقررفرمائے ہیں تاکہ جو چوپائے انہیں دئے ہیں ان پر اللہ کا نام لیں سمجھ لو کہ تمہارامعبود برحق صرف ایک ہی ہے تم اسی کے تابع فرمان ہوجاؤاور عاجزی کرنے والوں کو خوشخبری سنادیجئے  یہ وہ لوگ ہیں کہ جب اللہ کا ذکرکیاجائے تو ان کے دل تھراجاتےہیں ، انہیں برائی لاحق ہوتی ہے تواس پر صبرکرتےہیں ، نمازقائم کرتے ہیں ، اور جورزق دیاہے اس میں (اللہ کی راہ میں )خرچ بھی کرتےہیں ۔اورقربانی کے اونٹ کو ہم نے تمہارے لئے اللہ تعالیٰ کی نشانیاں مقرر کر دی ہیں ان میں تمہارےلئے خیراور نفع ہے۔ پس انہیں کھڑا کر کے ان پر اللہ کا نام لو)۔

     اس آیت کریمہ کے اندر جہاں اللہ کی دی  ہوئی نعمت پر ذکر وشکرکا حکم ہے وہی اس بات کی تاکید بھی ہے کہ عبادت کا مستحق صرف اور صرف الہ واحدہے،  اسی لئے اطاعت وفرمانبرداری اورہر قسم کی  عبادت بھی اسی کی ہونی چاہئے، اور ہر عبادت میں شرک کی گندگی سے خود کو پاک رکھنا چاہئے ، اگر ایسا کیاتو بلا شبہ رب العزت کی طرف سے ایسے عاجز اور فرمانبردارکے لئےجو اللہ کے ذکر سے تھرا جاتے ہیں اور مصیبتوں پہ صبرکرتے ہیں نمازکی پابندی کرتےہیں اور صدقہ وخیرات کا اہتمام کرتے ہیں  خوشخبری ہی خوشخبری ہے ۔

     اللہ رب العزت نے آیت مذکورہ کےاندر ذبح کے جانورو ں کے اوپر اپنے ذکرکو توحید ، خشوع ، صبر، نمازاورصدقات  سے ملایا ہے جنہیں   عبادت کی حیثیت سے خاص مقام حاصل ہے ، اسی لئے ہم دیکھتےہیں کہ قربانی کے اندر توقیف کی ہر خصوصیت موجود ہے ، قربانی کے لئے استطاعت، انہیں جانوروں کی قربانی  کی تخصیص جن کا ذکر نصوص قرآن وسنت میں موجودہے ،قربانی کے لئے وقت کی تعیین ،  وغیرہ وغیرہ ۔

(7)  قربانی کا ایک مقصد  اللہ کی دی ہوئی نعمتوں پراس کا شکر اداکرناہے، جو اس کے نیک اورمومن بندوں کی صفت ہے اور اس کی رضامندی کے لئے ضروری ہے ، اللہ تعالی فرماتاہے : {وَقَلِيلٌ مِّنْ عِبَادِيَ الشَّكُورُ }(السبا:13)(اورمیرے بندوں میں سے شکرگذاربندے کم ہی ہوتےہیں ) اسی طرح  وہ شکرکرنے والے کو اپنی مزید نعمتوں سے نوازتاہے ، فرماتاہے :{وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكُمْ لَئِن شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ ۖ وَلَئِن كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ }(ابراہیم :7)  (اور جب تمہارے پروردگار نے تمہیں آگاہ کردیا کہ اگر تم شکرگذاری کروگے تو بےشک میں تمہیں زیادہ دوں گا اور اگر ناشکری کروگے تو یقینا میراعذاب بہت سخت ہے )۔ لہذا اللہ رب العزت جب بھی کو ئی نعمت دیتاہے اس پر بندے سے شکر کا مطالبہ کرتاہے ، ارشاد فرماتاہے : {كَذَلِكَ سَخَّرْنَاهَا لَكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ }(الحج: 36) (اس طرح چوپاؤں کو ہم نے تمہارے ماتحت کردیاہے کہ تم شکر بجالاؤ)۔

(8)  قربانی صبر اسقامت اوراطاعت فرمانبرداری کی عظیم مثال ہے ، ابراہیم واسماعیل علیہما السلام سے رب العزت کی طرف سے باپ کے ذریعے بیٹے کی قربانی پیش کرنے کا مطالبہ اپنے آپ میں ایک ایسا مطالبہ ہے جسے پوراکرنا  ایک شفیق اور رحیم باپ کے لئے ناممکن  ہوتاہے ،اور وہ بھی جب  اس کے کمسن بچہ نے  ابھی ابھی چلنا پھرنا شروع کیاہویا بلوغت کے قریب پہنجاہو۔لیکن اللہ کا حکم پاتے ہی بیٹے سے کہتاہے:{یٰبُنَیَّ اِنِّیْۤ اَرٰی فِی الْمَنَامِ اَنِّیْۤ اَذْبَحُكَ فَانْظُرْ مَاذَا تَرٰی}۔(الصافات:102)۔  (میرے  لخت جگر! میں خواب میں اپنے آپ کو تجھے ذبح کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں اب تو بتا کہ تیری کیا رائے ہے)۔

اور پھر عظیم باپ کا عظیم  وحلیم بیٹا اطاعت وفرمانبرداری اور صبر واستقامت میں  کہاں باپ سے پیچھے رہنے والا تھا فورا  کہتا  ہے:{يَا أَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ ۖ سَتَجِدُنِي إِن شَاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرِينَ }(الصافات:102)۔( اے اباجان آپ کو جوحکم ملا وہ کرڈالئے ، مجھے آپ صبرکرنے والوں میں سے پائیں گے ) ۔   

     یہاں  ایک باپ کا صبر اور اس کی استقامت دیکھئے کے فورا اس حکم کی بجاآوری کے لئے تیارہوجاتاہے ،جوایک عام انسان کے لئے بظاہرناممکن ہے ،  اس یقین کے ساتھ کہ جس مالک نے اولاد جیسی نعمت سے سرفرازکیاہے ، اسی نے اپنے لئے اس کی قربانی طلب کی ہے ، اس میں اس کی حکمت   اور رحمت کا ادراک ایک انسان کے لئے ناممکن تو ضرور ہے لیکن اس  سے امیدیں قائم ودائم  ہیں ۔اور پھر رب کائنات کی رحمت اور اس کی حکمت کا ظہور ہوتاہے اور وہ اس قربانی کو مسلمانوں کے لئے بےپناہ  رحمتوں اور حکمتوں کے ساتھ قیامت تک کے لئے ایک عظیم عبادت قراردے دیتاہے۔  چنانچہ جہاں ایک طرف اللہ رب العزت نے اسے ابراہیم علیہ السلام کے لئے آزمائش کے ساتھ ساتھ انعام و اکرام  قراردیا  وہی دوسری طرف ان کو اس کےبہترین عوض سے سرسرفرازفرما دیا ، ارشاد فرماتاہے :{ فَلَمَّا أَسْلَمَا وَتَلَّهُ لِلْجَبِينِ. وَنَادَيْنَاهُ أَن يَا إِبْرَاهِيمُ . قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْيَا ۚ إِنَّا كَذَٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ . إِنَّ هَٰذَا لَهُوَ الْبَلَاءُ الْمُبِينُ.وَفَدَيْنَاهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ . وَتَرَكْنَا عَلَيْهِ فِي الْآخِرِينَ }(الصافات:103-108)۔(غرض جب دونوں مطیع ہوگئے(اور قربانی کے لئے تیارہوگئے) اور (ابراہیم نے) بیٹےکو پیشانی کے بل گرادیا تو ہم نے آوازدی کہ اے ابراہیم ! یقینا تونے اپنے خواب کو سچاکردکھایابیشک ہم نیکی کرنے والوں کواسی طرح جزادیتے ہیں ،درحقیقت یہ کھلا امتحا ن تھااور ہم نے ایک بڑا ذبیحہ اس کے فدیہ میں دے دیا اور ہم نے ان کا ذکرخیرپچھلوں میں باقی رکھا)۔

(9) قربانی کے اندر اللہ رب العزت کی  وحدانیت ، ربوبیت ، الوہیت ،نصرت وتوفیق ،  اس کی بڑائی وبزرگی کا اقرار اوربندوں کی اس کے لئے رضا وتسلیم اور عبودیت کا اقرار  واذعان ہے، قربانی کی دعاؤں میں سے ایک دعاء میں ان ساری چیزوں کو اکٹھاکردیا گیاہے : "بسم الله والله أكبر , اللهم هذا منك ولك"۔"میں شروع کرتاہوں اللہ کے نام سے ، اللہ سب سےبڑا ہے ۔ اے اللہ !یہ تیرے ہی دئے ہوئے رزق اور توفیق سے ہے اور تیرے لئے ہی (یہ قربانی ) ہے"۔(علامہ البانی نے اسے صحیح کہاہےدیکھئے:ارواء الغلیل/1152)۔

 (10)   قربانی کے عظیم مقاصدمیں سے ایک اہم مقصد مختلف صورتوں میں اہل وعیال ، دوست واحباب اور فقراء ومساکین کی معاشی  امداد واکرام ہے ۔اللہ تعالی فرماتاہے :{ فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ}(الحج:36) ۔(اس سے خودبھی کھاؤ اور مسکین سوال سے رکنے والوں اور کرنے والوں کو بھی کھلاؤ)۔ اور ایک جگہ فرماتاہے: {فَكُلُوْا مِنْهَا وَاَطْعِمُوا الْبَآىِٕسَ الْفَقِیْر}۔(الحج:36)۔(اس میں سے  تم خود بھی کھاؤ اور بھوکے فقیروں کو بھی کھلاؤ)۔

 اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشا د فرمایا:" كلوا وادخروا وتصدقوا "(قربانی کے گوشت میں سے ) کھاؤ ذخیرہ کرو اور صدقہ کرو"(صحیح مسلم/1973)۔

(11)  تجارتی مقصد سے دیکھاجائے تو  اس  کے اندر ملک وقوم کےلئے حلال کمائی اور بے شمار منافع کے حصول کا  بہترین ذریعہ اور سنہری مو قع ہوتاہے، جانوروں کی پرورش  وپرداخت اور خرید وفروخت  میں  گھرسے لے بازارتک آمدنی اور تموّل   کے بہترین ذرائع ہیں ۔

اللہ رب العزت ہماری قربانیوں کو ریاء وتعلی سے پاک خالص اپنے لئے کردے اور اسے قبولیت سے نوازے۔ وصلی اللہ علی خیرخلقہ وسلم ۔

******

(روزنامہ سماج نیوز دہلی /4 جون 2025 ءعدد10 شمارہ 23)